Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر12

امی آپ لوگو نے مجھے کیوں بلایا۔۔آپ ابو سے کہہ نہیں سکتی تھی کہ میرا آنا اتنا ضروری نہیں تھا۔۔۔اور یہ ہمارے گھر میں اتنی تیاری کیوں ہو رہی ہے۔۔۔کیا اسکی منگنی ہمارے گھر ہے۔۔۔ہانیہ ناگواری سے بولی ۔۔۔ ہاں۔۔۔پاکیزہ بیگم نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔ انکی جواب پر ہانیہ چونکی۔۔۔ امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔ تمہاری کل منگنی ہے عماد کے ساتھ۔۔۔۔ اور پاکیزہ کی بات پر ہانیہ کو لگا کسی نے آسمان اس کے سر پر دے مارا۔۔۔ امی آپ مذاق کر رہی ہیں نہ۔۔۔اس نے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔جن کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔۔ میں تم سے مذاق کرونگی۔۔۔؟؟تم لوگو کو بہت محبت تھی نہ اپنی چچی سے۔۔۔تم لوگو کولگتا تھا کہ مجھ سے زیادہ وہ تم سب سے محبت کرتی ہے دیکھ لو انکی محبت۔۔۔بیٹا میں تم لوگو کی ماں ہوں پہچان جاتی ہوں کہ کون میری اولاد سے دیکھاوے کا پیار کرتا اور کون دل سے۔۔۔ ہانیہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ اسکی چچی ایسا بھی کر سکتی ہیں۔۔۔ امی مجھے منگنی نہیں کرنی۔۔۔آپ جانتی ہیں جب تک میں اپنی سی سی ایس کرنے کی خواہش پوری نہیں کر لیتی میں کسی سے منگنی نہیں کر سکتی۔۔۔ہانیہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔ میں تو خود بھی نہیں چاہتی کہ تمہاری ابھی منگنی ہو۔۔۔اور خاص کر عالیہ کے بھانجے سے۔۔۔میں نے تمہارے باپ کی بہت منت سماجت کی۔۔پر تم جانتی ہو جب عالیہ کچھ کہے دے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔کہتے ہوئے ثمر کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ تمہیں میں نے کہا تھا بہن کو مت لے کر آنا۔۔۔نانو کو ساری بات بتا دینا۔۔۔پھر کیوں لاۓ اسے۔۔۔کیوں اسے سچ نہیں بتایا۔۔؟؟پاکیزہ بیگم دھاڑنے والے انداز میں بولی۔۔ امی میں کیا کرتا ابو نے کہا تھا کہ اگر میں آپی کو نہیں لایا تو میں گھر داخل نہیں ہوسکتا۔۔۔پھر مجھے آپی سے جھوٹ بولنا پڑا کہتے ہوئے فوراً کمرے سے چلا گیا۔۔۔ سجل بھی رو رہی تھی وہ جانتی تھی اسکی بہن شازل سے بہت محبت کرتی ہے۔۔۔لیکن وہ اپنی بہن کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ ہانیہ فوراً اٹھ کر ماں کے قریب آکر بیٹھ گئی۔۔۔امی دیکھیں کچھ کریں میں یہ منگنی نہیں کر سکتی۔۔۔آپ تو ماں ہیں نہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔۔۔پلیز آپ ابو کو منائیں مجھے یقین ہے ابو آپ کی بات ضرور مان لے گئے۔۔۔ہانیہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔ ہانیہ میری بچی۔۔۔میں نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا ہے پر شنواری صاحب نہیں مان رہے۔۔۔اور جو باتیں عالیہ نے ان سے کہی ہیں اس کے بعد تو وہ تمہاری منگنی کر کے ہی رہے گئے۔۔۔اور تم منگنی کر لو۔۔۔ اسکے بعد جب تم اپنا سی سی ایس پاس کر جاؤ گی۔۔۔تب یہ منگنی توڑ دینا۔۔۔پاکیزہ نے مشورہ دیا یہ جانتے ہوۓ بھی کے شنواری صاحب اب نہیں مان رہے بعد کیسے مانے گئے۔۔۔ امی مجھے عماد سے منگنی نہیں کرنی۔۔۔ہانیہ اپنی بات پر باضد تھی۔۔۔ ہانی۔۔۔اب تم بھی ضد چھوڑ دو۔۔تم جانتی ہو تمہارے ابو جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔۔۔ امی سمجھ کیوں نہیں رہیں میں شازل سے محبت کرتی ہوں میں شادی تو کیا اس کے علاوہ کسی سے منگنی بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ہانیہ حلق کے بل چلائی۔۔۔ ہانیہ کے اس انکشاف پر تو جیسے وہ سکتے میں آگئی۔۔۔جس بات کا انھیں ڈر تھا وہی ہوا۔۔۔ ہانیہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔اگر تمہارے باپ نے سن لیا تو۔۔۔۔ امی میں کچھ نہیں جانتی۔۔میں نانو کے گھر واپس جا رہی ہوں۔۔۔میں شازل کے علاوہ کسی سے بھی شادی نہیں کرونگی۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنا بیگ اٹھانے کے لیے مڑتی۔۔شنواری صاحب نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔۔۔ ہانیہ اس تھپڑ کے لیے تیار نہیں تھی لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ پر گری۔۔۔ سہی کہہ رہیں تھی بھابھی۔۔۔تمہیں مجھے وہاں بھیجانا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔کہتے ہوئے پاکیزہ بیگم کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔ پہلے تمہاری بہن کم تھی میری عزت کی دهجيااڑانے کے لیے کے اب اس کے بیٹے نے میری بیٹی کو پھسا لیا۔۔۔کاش جوانی میں تم سے محبت کی غلطی نہ کی ہوتی۔۔۔تو آج مجھے یہ سب نہ دیکھنے کو ملتا۔۔۔اور کان کھول کر سن لو تم ہانیہ۔۔۔کل تمہاری منگنی نہیں ہے بلکہ نکاح ہے اور رخصتی بھی ساتھ ہی ہوگی۔۔۔سنا تم نے۔۔۔شنواری صاحب دھاڑے۔۔۔۔ شنواری صاحب آپ میری بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔خود کو کہی وہ ہر بات بھول گئی تھی۔۔۔اسے فلحال اپنی بیٹی کی زندگی کی فکر تھی جو اس وقت داؤ پر لگی تھی۔۔ یہ میری بیٹی ہے اور میں جو چاہو کروں تم بیچ میں نہیں آؤ گی۔۔۔تمہاری بہن مجھ سے صرف اورصرف بدلہ لینا چاہتی ہے۔۔اسلیے اس نے اپنا بیٹا میری بیٹی کے پیچھے لگا دیا۔۔۔میں اس کے ساتھ شادی کر کے اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کرسکتا۔۔۔کہتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔۔۔ اور انکے جاتے ہی پاکیزہ بیگم نے ہانیہ کو اپنے سینے سے لگایا۔۔۔ جواب گھٹنوں منہ دیے زور قطار رو رہی تھی۔۔۔


رات کا دوسرا پہر تھا۔۔۔ہانیہ ابھی تک رو رہی تھی۔۔۔رو رو کر اسکی آنکھیں سوجھ چکی تھی۔۔۔ ہانی میری بچی چپ کر جاؤمت رو ایسے۔۔۔تمہارے اس طرح رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔پاکیزہ بیگم اس کے بالو میں انگلیاں پھرتے ہوۓ بولی۔۔۔ امی میں شازل کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ابو اور خالہ کی جو بھی ناراضگی ہے اسکی سزا مجھے اور شازل کو کیوں دے رہے ہیں۔۔۔۔امی آپ یقین کریں وہ مجھ سے سچ میں بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔اور نانو بھی یہ بات جانتی ہیں۔۔۔ اسکی بات پر پاکیزہ بیگم کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی۔۔۔ پاکیزہ بیگم کو خاموش دیکھ کر ہانیہ کو دکھ ہوا تھا۔۔۔ہانیہ نے انکی گود سے اپنا سر اٹھا کر تکیے پر رکھ دیا۔۔۔شاید یہ ناراضگی کا اظہار تھا۔۔۔ سجل۔۔؟؟پاکیزہ بیگم نے سجل کو آواز دی جو کروٹ بدل کر بظاہر سورہی تھی۔۔۔ انکی آواز پر اٹھ بیٹھی۔۔۔ بیٹا جگہ رہی ہو تو میری بات سنو۔۔۔ جی امی نیند نہیں آرہی۔۔۔آپی کی حالت دیکھیں۔۔ بھلا ایسے مجھے نیند آئے گی میری بہن تکلیف میں ہے۔۔۔سجل دکھ سے بولی۔۔۔ تو پھر اپنی بہن کے لیے ایک کام کروگی۔۔۔؟؟پاکیزہ بیگم نے سوالیہ نظرو سے اسے دیکھا۔۔۔ جی امی آپ کہے۔۔۔ جاؤ اپنے ابو کا فون لے کر آؤ۔۔۔ انکی بات پر سجل ششدر ره گئی۔۔۔ امی میں کیسے۔۔۔اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی پاکیزہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔ دیکھو۔۔۔اس کے علاوہ اور کوئی حال نہیں ہے۔۔۔ہمیں ابھی اور اسی وقت شازل سے بات کرنی ہوگی۔۔۔میرے پاس تو فون ہے نہیں۔۔۔اور نیچے جا کر ہم فون پر بات کر نہیں سکتے۔۔تو میرے پاس صرف یہ ایک ہی حل ہے۔۔۔تمہارے ابو سو رہیں ہونگے۔۔۔تم فوراً فون اٹھا لانا۔۔۔پر دھیان سے۔۔۔ کچھ پل سوچنے کے بعد سجل اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ ٹھیک ہے میں لاتی ہوں کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔۔۔ سجل اور امی کی باتیں سن کر ہانیہ اٹھ بیٹھی۔۔۔اور حیرانگی سے پاکیزہ بیگم کو دیکھا۔۔۔ اب دعاکروں سجل لے آئے۔۔۔ہانی میں تو خود یہی چاہتی ہوں کہ تمہاری شادی شازل سے ہو وہ بہت اچھا ہے۔۔وہ آپا پر بلکل نہیں گیا۔۔۔ خالہ نے ایسا کیا کیہ ہے جس کی وجہ سے ابو انھیں پسند نہیں کرتے۔۔۔ہانیہ نے پوچھا۔۔ اس سے پہلے وہ ہانیہ کو کچھ بتاتی۔۔۔انکی نظر کمرے میں داخل ہوتی سجل پر پڑی۔۔۔ جو اب اپنے دوپٹے میں چھپا کر لاۓ ہوۓ فون کو پاکیزہ بیگم کی گود میں رکھ رہی تھی۔۔۔ ہانیہ تمہیں شازل کا نمبر یاد ہے۔۔۔؟؟؟انہوں نے سوالیہ نظرو سے ہانیہ کو دیکھا۔۔۔ جی امی اکثر نانو مجھ سے شازل کو فون کروایا کرتی تھیں۔۔۔ چلو پھر جلدی سے اسے فون ملاؤ اور اسے کہو۔۔تمہیں آکر لے جاۓ۔۔۔ انکی بات پر ہانیہ نے فوراً شازل کا نمبر ٹائپ کیا۔۔۔ایک سے دو رنگز کے بعد شازل نے فون اٹھا لیا۔۔۔۔ ہیلو شازل۔۔۔ہانیہ نے اپنی لڑکھڑاتی آواز میں شازل کا نام پکارہ۔۔۔ ہانی۔۔خیر ہے تم نے اس وقت فون کیا اور بھی انکل کے فون سے۔۔۔شازل بھی اسکے ایسے بولنے پر گھبرا گیا تھا۔۔۔ شازل کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے کل میری شادی ہے۔۔۔پلیز مجھے یہاں سے لے جاۓ۔۔۔کہتے ہوئے ہانیہ نے پھر سے رونا شروع کر دیا۔۔۔ پاکیزہ بیگم نے ہانیہ سے فون لے کر خود شازل سے بات کی۔۔۔ شازل بیٹا ہمارے پاس وقت نہیں ہے اگر تم واقعی ہانیہ سے محبت کرتے ہو۔۔تو میری بیٹی کو آکر یہاں سے لے جاؤ۔۔۔میری بیٹی تم سے سچی محبت کرتی ہے اسے دھوکہ مت دینا۔۔۔وہ سنجیدگی سے بول رہی تھی۔۔۔ انٹی آپ فکر مت کریں میں آرہاہوں۔۔۔ہانیہ میری ہے اور میں ہی اس سے شادی کرونگا۔۔میں اسے دھوکہ دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔آپ پلیز اسے حوصلہ دیں۔۔۔میں آرہا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے اللہ‎ حافظ۔۔۔کہتے ہوئے فون کاٹ دیا۔۔۔۔ یہ لو سجل جیسے فون لے کر آئی تھی ویسے ہی خیال سے رکھ آؤ۔۔۔ جی امی۔۔۔سجل فون ویسے ہی دوپٹے میں چھپا کر کمرے سے چلی گئی۔۔۔ چلو بس اب رونا بند کرو۔۔۔اب سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔۔پاکیزہ بیگم نے اسے کے پیشانی پر پیار دیا۔۔۔ جس پر ہانیہ با مشکل ہی مسکرائی۔۔۔

   0
0 Comments